لندن(قدرت نیوز)دنیا بھر میں اس وقت قریباً تین کروڑ ساٹھ لاکھ افراد غلامی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔اس جدید دور میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں سب سے زیادہ انسانی غلام پائے جاتے ہیں۔آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی عالمی تنظیم واک فری فاؤنڈیشن نے سوموار کو ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا ہے کہ موریتانیہ ،ازبکستان ،ہیٹی اور قطر ایسے ممالک ہیں جہاں انسانی غلامی کا گہراتصور موجود ہے اور انسانوں کو غلام بنا کر ان سے جبری مشقت لی جاتی ہے۔اس فاؤنڈیشن نے گذشتہ سال جاری کردہ اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ دنیا بھر میں غلاموں کی تعداد دو کروڑ اٹھانوے لاکھ ہے۔ان افراد سے غلاموں ایسا سلوک کیا جاتا ہے،جنسی تسکین کے لیے اسمگل کیا گیا ہے یا وہ قرضوں میں جھکڑے ہوئے ہیں اور ان سے قرضہ چکانے کے لیے جبری مشقت لی جارہی ہے۔واک فری فاؤنڈیشن نے اپنے جاری کردہ دوسرے سالانہ انڈیکس میں غلاموں کی تعداد بڑھا کر تین کروڑ اٹھاون لاکھ نفوس کردی ہے اور بتایا ہے کہ غلاموں کی تعداد سے متعلق اس مرتبہ بہتر انداز میں اعدادوشمار اکٹھے کیے گئے ہیں اور جن علاقوں تک اس کی پہلے رسائی نہیں ہوسکی تھی،اب وہاں بھی غلاموں کی موجودگی کا پتا چلا ہے۔دنیا کے 167 ممالک کے اس اشاریے (انڈیکس) کے مطابق بھارت میں دنیا بھر میں غلاموں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور اس کی سوا ارب آبادی میں سے ایک کروڑ تینتالیس لاکھ نفوس غلامی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔وہ جبری مشقت پر مجبور ہیں اور بدترین حالات میں جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔آبادی کی شرح تناسب کے اعتبار سے مغربی افریقہ کا ملک موریتانیہ غلاموں کی تعداد میں دوسرے نمبر پر ہے۔گیس کی دولت سے مالامال خلیجی ریاست قطر آبادی کے شرح تناسب کے مطابق غلاموں کی تعداد میں چوتھے نمبر پر ہے۔قطر2022ء میں منعقد ہونے والے عالمی کپ فٹ بال ٹورنا منٹ کی میزبانی کرے گا۔قطر پراس ٹورنا منٹ کے لیے اسٹیڈیمز کی تعمیر کے کام میں غیرملکی تارکین وطن سے جبری مشقت لینے کے الزامات عاید کیے جاتے رہے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جدید دور کی غلامی کی کئی شکلیں ہیں:''بچوں کو تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے اور انھیں جبری کام یا اوائل عمری میں ایسے مردوں سے شادی پر مجبور کیا جاتا ہے جن کے قرض کے بوجھ تلے ان کے والدین دبے ہوتے ہیں۔خواتین اور لڑکیوں کا استحصال کیا جاتا ہے اور انھیں ان کے کام کا معاوضہ نہیں دیا جاتا ہے۔گھریلو ملازمین سے ناروا سلوک کیا جاتا ہے''۔اس اشاریے میں غلامی کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ لوگوں کو اس انداز میں اپنے قبضے میں رکھنا کہ اس طرح سے انھیں آزادی سے محروم کردیا جائے اور جبر وتشدد یا دھوکا دہی کے ذریعے ان سے جنسی یا مالی فائدہ حاصل کیا جائے۔اس تعریف کے تحت وراثتی غلام ،جبری شادیاں اور جنگ میں شرکت کے لیے بچوں کا اغوا بھی غلامی کے زمرے میں آتا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افریقی مسلم ملک موریتانیہ میں لوگ نسل در نسل غلام چلے آرہے ہیں اور کل آبادی انتالیس لاکھ میں سے چار فی صد لوگ غلامی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔موریتانیہ کے بعد وسط ایشیائی مسلم ریاست ازبکستان میں بھی غربت کی وجہ سے غلامی پائی جاتی ہے حکومت کی جانب سے تمام شہریوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ہرسال کپاس کی ایک مخصوص مقدار چُنیں۔ہیٹی میں غریب بچوں کو امیر خاندانوں کے پاس بھیج دیا جاتا ہے جہاں ان کا خوب استحصال ہوتا ہے۔
بھارت کے بعد پاکستان ،عوامی جمہوریہ کانگو ،سوڈان ،شام اور جمہوریہ وسطی افریقہ ایسے ممالک ہیں جہاں ابھی تک لوگوں کے ساتھ غلاموں ایسا معاملہ کیا جاتا ہے۔فاؤنڈیشن کے اشاریے کے مطابق صرف دس ممالک میں دنیا بھر کے اکہتر فی صد غلام لوگ رہ رہے ہیں۔بھارت کے بعد چین میں غلاموں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور یہ تعداد بتیس لاکھ ہے۔پاکستان میں اکیس لاکھ ،ازبکستان میں بارہ لاکھ ،روس میں دس لاکھ پچاس ہزار ،نائیجیریا میں 834200 ، عوامی جمہوریہ کانگو میں 762900 ،انڈونیشیا میں 714100 بنگلہ دیش میں 680900 اور تھائی لینڈ میں غلاموں کی تعداد 475300 ہے۔
0 comments:
Post a Comment